لندن،3اگست(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا): ماہرین نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اگلی چار دہائیوں میں دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تین گنا بڑھ جائے گی۔لانسٹ گلوبل ہیلتھ میں چھپی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بہتر امداد کے ذریعے دنیا کے لوگوں کے بینائی کے مسائل کا علاج نہ ہو سکا تو سنہ 2050تک دنیا میں اندھے پن کے شکار افراد کی تعداد تیس کروڑ ساٹھ لاکھ سے بڑھ کر ایک ارب پندرہ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔لمبی عمر بھی نابینا افراد کی تعداد میں اضافے کا ایک سبب ہے۔
جنوبی ایشیا اور نیم صحارائی افریقہ میں اندھے پن اور نظر کی کمزوری کے شکار افراد کی تعداد زیادہ ہے۔اس تحقیق کے مطابق نظر کی کمزوری کے شکار افراد کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔لیکن چونکہ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور لوگوں کی عمر میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے ماہرین نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی دہائیوں میں نابینا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔دنیا کے 188ممالک سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق دو ارب سے زیادہ آبادی کم سے شدید نوعیت کے امراض چشم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
پروفیسر رپرٹ بورنی جن کا تعلق انگلیا رسکن یونیورسٹی سے ہے کا کہنا ہے کہ تھوڑی سے بھی نظر کی کمزوری کبھی کبھی انسان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہے جیسے کچھ لوگ اس مسئلے کی وجہ سے ڈرائیونگ نہیں کر پاتے اور اپنی کہیں آنے جانے کی آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں تھوڑے انفراسٹرکچر کی مدد سے لوگوں کو دوبارہ کام کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔سائٹ سیورز نامی امدادی ادارہ جو دنیا کے 30 ممالک میں کام کرتا ہے کے مطابق آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ادارے سے منسلک عمران خان کا کہنا ہے کہ بڑھتی عمر کی وجہ سے دائمی امراض چشم بڑھے ہیں اور ہمارا اندازہ ہے کہ یہ غریب ممالک میں بڑھے گا۔ان کے خیال میں ترقی پذیر ممالک میں صحت کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور ان ممالک میں زیادہ نرسوں اور ڈاکٹرز کی ضرورت ہے جنھیں آنکھوں کی صحت کے طریقہ کار سے متعلق تربیت دی جائے۔جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 17لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جبکہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد 60لاکھ 20ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی تیس لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے۔اسی طرح مغربی یورپ کی کل آبادی کا اعشاریہ پانچ فیصد حصہ متاثر ہے۔